{توکّل} – مصباح العرفان

توکل کا مطلب یہ ہے کہ اپنے تمام تر معاملات اللہ جل شانہ کے سپرد کر کے راضی بہ رضا رہنا۔ خوشی‘ غمی‘ نفع یا نقصان‘ ہر حال میں منشائے ایزدی کو بہ صدقِ دل و جان تسلیم کرنا۔ مجھ سے سخیٔ کاملؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے بچپن سے لے کر جوانی تک اپنی زندگی کا بیشتر حصہ سرکارِ عالیؒ کی خدمتِ اقدس میں گزارا۔ میں نے انہیں کامل متوکل شخصیت پایا۔ وہ کسی لمحے بھی کسی بات پر متفکر نہ ہوتے۔ آپ کے آستانہ پر دن رات لنگر تقسیم ہوتا، دو مرتبہ چائے ملتی۔ انہوں نے کبھی سامانِ خورد و نوش جمع نہیں فرمایا۔ روزانہ تازہ سامان خریدا جاتا اور لنگر تقسیم ہوتا۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا کہ لنگر کے لئے خوردنی اشیاء نہ ہوتیں۔ ہم لوگ اور لانگری صاحبان تشویش میں پڑ جاتے۔ لیکن قربان جاؤں سرکارِ عالیؒ کے توکّل پر کہ وہ ہماری باتیں سن کر بھی مُشَوَّش نہ ہوتے بلکہ مسکراتے ہوئے فرماتے‘ فکر کیوں کرتے ہو؟ جس کا لنگر ہے‘ وہ خود انتظام کرے گا۔ اور ہمیشہ ایسا ہی ہوتا۔ مختلف لوگ خود بخود سامانِ خورد و نوش لے کر حاضرِ خدمت ہوجاتے۔ یہ تو لنگر کی بات ہے جس میں ناغہ آپؒ کو گوارہ نہ تھا کہ آپؒ مخلوق کو بھوکا نہیں دیکھ سکتے تھے لیکن اندرونِ خانہ‘ گھر میں اگر کبھی فاقہ پر نوبت پہنچ جاتی تو آپؒ یہ کہہ کر سب کو مطمئن کر دیتے کہ فاقہ ہمارے اجداد کی اوّلین سنت ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ اس سنت پر عمل ہو گیا ہے۔

سخیٔ کاملؒ نے ایک موقع پر مجھے بتایا کہ سرکارِ عالیؒ بیماری کی حالت میں بھی رضائے الٰہی پر توکل کا دامن نہ چھوڑتے۔ کبھی دوائی وغیرہ استعمال نہ کرتے۔ فرمایا کرتے بیماری یا تکلیف منجانب اللہ ہوتی ہے اور تکلیف یا بیماری کا وقت مقرر ہوتا ہے۔ مقررہ وقت پر اللہ تعالی کے حکم سے خود بخود ختم ہو جاتی ہے۔ یہاں سخیٔ کاملؒ نے مجھے بڑی صراحت کے ساتھ بتلایا کہ یہ توکّل صرف معصومین اور محبوبین ہی کا خاصہ ہے۔ ان خاص الخاص لوگوں کی قوتِ برداشت عام لوگوں سے بہت زیادہ ہوتی ہے۔ انہوں نے مجھے یہ بھی بتایا کہ سرکارِ عالی فرمایا کرتے کہ توکّل کی تین اقسام ہیں؛ اوّل انبیاء کا توکّل‘ دُوُم اولیاء عظام کا، سوم عام مخلوق کا۔ انبیائے کرامؑ‘ آئمہ مطہرینؑ اور معصومینؑ کو جن مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑا، عوام اسے برداشت تو کیا اس کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ سرکارِ عالیؒ کا توکل محبوبین‘ اولیائے کرام کی تقلید تھی۔ سخیٔ کاملؒ نے مجھے بتایا کہ سرکارِ عالیؒ ہمیشہ فرماتے، ’’میرے لئے اللہ اور اس کا رسول ﷺ ہی کافی ہیں‘‘، اور اللہ پر پورا پورا بھروسہ رکھتے۔ آپؒ نے اپنی پوری زندگی میں اپنی ذات کے لیے کسی قسم کی کوئی جائیداد نہ بنائی۔ اپنی مرضی سے کوئی چیز اپنے استعمال کے لیے نہ خریدی۔ آپؒ کی خدمت میں جو بھی نقدی یا سامان بطور نذرانہ پیش ہوتا، وہ تمام کا تمام راہ خدا میں خرچ کر دیتے۔ کوئی شے یا رقم پس اندازہ نہ کرتے۔ خدا پر کامل بھروسہ کرتے۔ فرماتے جس نے آج دیا ہے، وہ کل بھی دے گا۔ بعض اوقات اپنے تن کے کپڑے بھی اتار کر غریبوں‘ مسکینوں میں تقسیم فرما دیتے اور فرماتے، یہ مجھ سے زیادہ حق دار ہیں ۔میرا اللہ وارث ہے۔ وہ مجھے اور دے دے گا۔ غرضیکہ آپؒ کی زندگی کے جس پہلو پر غور کیا جائے، وہ قرآنِ مجید کی اس آیۂ کریمہ کی تفسیر نکلے گا۔

 

وَمَنْ يَّتَوَكَّلْ عَلَي اللّٰهِ فَهُوَ حَسْبُهٗ ۔ (سورۃ الطلاق‘ آیت 3)

ترجمہ:    جو اللہ پر بھروسہ کرتا ہے، اللہ اس کے لئے کافی ہے۔

This entry was posted in محبوبِ ذات, مصباح العرفان, سیّد مبارک علی گیلانی and tagged , , , , , , , , , , , , , , , . Bookmark the permalink.

اپنی رائے نیچے بنے ڈبے میں درج کر کے ہم تک پہنچائیں