جمعہ، 22 مئی، 2015

سکول میں پہلا دن – مصباح العرفان

الف سے اللہ}

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ اولیائے کرام کی تعلیم و تربیت خود اللہ کریم کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ ’’ کشف المحجوب‘‘ میں حضرت سیّد علی ہجویری داتا حضورؒ نے لکھا ہے کہ’’ یہ ضروری نہیں ہر عالم عارف ہو لیکن ہر عارف عالم ہوتا ہے‘‘۔ اللہ کے ولی صرف رسمِ دنیا نبھانے کے لیے مدرسوں کا رخ کرتے ہیں۔ سرکارِ عالیؒ کو بھی رسمِ دنیا نبھانے کے لیے  مدرسہ لے جایا گیا پھر وہاں کیا ہوا  ذرا دل تھام کے پڑھیے۔

1903ء میں جب آپؒ کی عمر تقریباً پانچ سال ہوئی تو آپؒ کو روڑس کے مدرسہ میں لے جایا گیا۔ وہاں صرف تین جماعتیں پڑھائی جاتی تھیں۔ آپ سرکارؒ جب استاد صاحب کے روبرو گئے تو استادِ گرامی نے آپ کی طرف دیکھا۔ جمالِ ولایت نے ان کی نظروں کو خیرہ کر دیا اور نظرِیں تاب نہ لاکر خُود بخود جھک گئیں۔ اُستاد صاحب نے بڑی محبت سے آپ کو اپنے ساتھ لپٹا لیا اور کہنے لگے کہ بیٹا پڑھو الف سے آم۔ آپؒ خاموش رہے۔ انہوں دوسری دفعہ پھر بڑی محبت سے کہا کہ بیٹا پڑ ھو الف سے آم۔ آپؒ پھرخاموش رہے۔ اُستاد صاحب نے سوچا کہ بچہ شرمیلا ہے، اس لئے چپ ہے۔ انہوں نے تیسری دفعہ پھر بڑی رسانت اور محبت سے کہا کہ بیٹا شرماؤ نہیں۔ پڑھو الف سے آم۔ آپؒ کے لب ہلے فرمایا، ’’استادِ محترم! الف سے آم نہیں‘ الف سے اللہ ہوتا ہے‘‘۔ استادِ محترم نے حیرت سے آپؒ کی طرف دیکھا لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ توحید کی برق دلوں کے خرمن پر گر چکی تھی۔ ولی کی زبان سے لفظ ’’اللہ‘‘ کا نکلنا تھا کہ اللہ اللہ کی پکار شروع ہو گئی۔ آپؒ اللہ اللہ کہتے ہوئے جس طرف نظر اٹھاتے‘ اسی طرف اللہ اللہ کا شور مچ جاتا۔ سب اساتذہ اور طالب علم اللہ اللہ پکار رہے تھے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اساتذہ اور طالب علموں میں مسلمانوں کی تعداد کم اور غیر مسلموں کی تعداد زیادہ تھی۔ انہیں اسی حال میں چھوڑ کر آپ گھر تشریف لے آئے۔ جب وہاں سکون ہوا تو سب دم بخود تھے کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔

روڑس کے ہر گھر میں اس واقعہ کی خبر ہو گئی۔ رفتہ رفتہ پورے علاقے میں آپؒ کی اس کرامت کا چرچا ہونے لگا۔ چند دن بعد آپؒ سکول گئے تو سب کہنے لگے‘ اللہ والے آگئے۔ سکول کے ساتھ کپڑے رنگنے والے رنگریزوں کا مکان تھا، جو آج بھی موجود ہے، اور ان کا ایک بزرگ روزانہ تفریح کے وقت برفی کی ایک ٹکڑی لے کر آتا اور سرکارِ عالیؒ کی ہتھیلی پر رکھ کر کہتا، ’’اللہ والو! میری نیاز قبول کر لو‘‘۔ سرکارِ عالیؒ اس کی نیاز قبول کرلیتے اور اس کے لئے دعا کرتے۔ یہ سرکارِ عالیؒ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ ایک کامل صدی گزر جانے کے باوجود وہ مکان قائم و دائم ہے اور اس مکان کے مکینوں کی آپؒ سے عقیدت میں بھی ذرّہ برابر فرق نہیں آیا۔ سکول کے دیگر طلباء اور اساتذۂ کرام‘ بلا امتیازِ مسلم وغیر مسلم‘ آپؒ سے محبت کرتے اور اپنے مسائل کے حل کے لیے دعائیں کراتے۔ اللہ کریم آپؒ کے اٹھے ہوئے ننھے ننھے ہاتھوں اور معصوم زبان سے نکلے الفاظ کی لاج رکھتے اور ان کے مسائل حل ہو جاتے۔


اوائل 2009ء کی بات ہے کہ

حضرت محبوبِ ذاتؒ کے ایک عقیدت مند جناب ماسٹر خلیل الرحمٰن صاحب میرے پاس تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ حال ہی میں میری تعیناتی‘ بطور ہیڈ ماسٹر‘ گورنمنٹ مڈل سکول روڑس ہوئی ہے۔ میرے سکول میں یومِ والدین کی تقریب منائی جارہی ہے‘ جس میں نئے پرانے قابلِ ذکر شاگردوں کے والدین اور ورثاء کو مدعو کیا جارہا ہے۔ میں نے پرانے ریکارڈ میں آپ کے دادا جان حضرت سیّد احمد حسین گیلانی‘ محبوبِ ذاتؒ سرکار‘ کا اسمِ گرامی درج دیکھا ہے۔ میں نے اپنے اسٹاف سے مشورہ کیا ہے۔ سب اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کے دادا جان اس سکول کے ایسے قابلِ احترام طالب علم تھے جو محبوبِ ذاتؒ جیسے اعلیٰ ترین قربِ الٰہی کے مقام پر پہنچے۔ ان کا نام پوری دنیا میں احترام سے لیا جاتا ہے اور ان کا ذِکر ہر جگہ نہایت ادب سے کیا جاتا ہے۔ اس سکول میں پہلے روز جو ان سے کرامت ظہور پذیر ہوئی‘ اس کی یاد پورے علاقے کے لوگوں کے دلوں میں ابھی تک زندہ ہے۔ آپ کے والدِ محترم دنیا میں سخیٔ کامل کے طور پر پہچانے گئے۔ وہ بھی ہمارے پرانے طالب علموں کی فہرست میں شامل ہیں۔ آپ بذاتِ خود ہمارے اولڈ اسٹوڈنٹ (old student) ہیں۔ اس لئے ہماری یہ خواہش ہے کہ آپ یومِ والدین کی اس تقریب میں تشریف لائیں اور اپنے دادا جان اور والدِ محترم کی یادیں تازہ کریں۔ لہٰذا میں نے اس تقریب میں شرکت کی۔ علاقہ کی بہت سی قابلِ ذکر سیاسی اور سماجی شخصیات تقریب میں موجود تھیں۔ وہاں کے اسٹاف (staff) اور طالبِ علموں نے میرے دادا جان اور ابّا حضور کے حوالے سے میری بہت عزت افزائی کی۔ مجھے انہوں نے وہ برآمدہ نما کمرہ بھی دِکھایا جہاں سرکارِ عالیؒ نے پہلے ہی روز توحید کا ڈنکا بجوایا تھا۔ اس برآمدے کی چھت انتہائی خستہ ہو چکی تھی۔ میں نے اس کی چھت بدلوا دی تاکہ اہل توحید کی یادگار قائم دائم رہے۔

دو سال تک آپؒ اس مدرسہ میں زیر تعلیم رہے۔ 1905ء میں آپؒ اگوکی کے مدرسہ میں داخل ہوئے اور چھٹی جماعت پاس کرنے کے بعد 1908ء میں مشن ہائی سکول‘ گندم منڈی‘ سیالکوٹ‘ میں داخلہ لیا۔ آپؒ کو فٹ بال کھیلنے کا بہت شوق تھا۔ آپؒ سکول کی فٹ بال ٹیم کے کپتان تھے۔ دورانِ تعلیم‘ اساتذۂ کرام اور طالبِ علم‘ سبھی اس راز سے واقف ہو چکے تھے کہ احمد حسین اللہ کا پیارا نوجوان ہے۔ اس لئے وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے اپنی معروضات آپؒ کی خدمت میں پیش کرتے رہتے اور آپ کا انتہائی احترام کرتے۔

آپ کو جو خرچہ گھر سے ملتا وہ غریب طالبِ علموں میں بانٹ دیتے۔ اکثر اوقات کرایہ بھی نہ بچاتے، حاجت مندوں کو دے دیتے۔ خود پیدل چل کر سیالکوٹ سے گھر تشریف لاتے۔

اس سکول کا ایک اہم واقعہ سخیٔ کاملؒ نے مجھے اس طرح سنایا کہ آپؒ نویں جماعت کے طالبِ علم تھے۔ ایک دن آپؒ کی ٹیم مرے کالج‘ سیالکوٹ‘ میں میچ کھیلنے گئی۔ دونوں ٹیموں نے جاندار کھیل کا مظاہرہ کیا لیکن کوئی ٹیم گول نہ کر سکی۔ میچ ختم ہونے میں 3منٹ باقی رہ گئے تو آپؒ کی ٹیم کے لڑکے آپؒ سے کہنے لگے کہ شاہ جی آج آپ کے ہوتے ہوئے بھی ہم میچ نہ جیت سکے تو بڑی بدنامی ہوگی۔ کچھ کریں۔

آپؒ نے ان سے کہا کہ اگر ساری ٹیم اسی گراؤنڈ میں اُس معبودِ برحق‘ جو دونوں جہانوں کا خالق اور مالک ہے‘ کے حضور سجدہ ریز ہو جائے تو تم جیت جاؤ گے۔ چنانچہ ساری ٹیم آپ کی قیادت میں اللہ اکبر کہہ کر گراؤنڈ میں سجدہ ریز ہو گئی۔ پھرسرکارِ عالیؒ نے اللہ اکبر کہہ کر زور دار ہٹ لگائی۔ بال سیدھا گول میں گیا۔ اس کے ساتھ ہی ٹیم فتح سے ہمکنار ہو گئی۔ ہر شخص ششدر رہ گیا ۔ ٹیم کے کھلاڑیوں اور تماشائیوں نے والہانہ طور پر آپؒ کو گھیر لیا۔ کوئی ہاتھ چومنے لگا تو کوئی پاؤں چومنے لگا۔ فتح کے ڈھول بجنے لگے‘ بھنگڑے پڑنے لگے۔ لوگ ہر طرف ’شاہ جی زندہ باد‘، ’شاہ جی زندہ باد‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ اب آپ کی ولایت لوگوں پر مکمل طور پر ظاہر ہو چکی تھی۔ لہٰذا 1911ء میں آپؒ ظاہری تعلیم اَدھوری چھوڑ کر گوشہ نشین ہو گئے۔ آپؒ کی ٹیم کا فل بیک ہیرا سنگھ بعد میں آپ کے دستِ حق پر مسلمان ہو گیا تھا اور وہ بہت عرصہ تک آپ سے ملنے کے لئے آتا رہا اور دین اسلام کی عملی تربیت حاصل کرتا رہا۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے