جمعہ، 3 اپریل، 2015

منڈیر کی کیا بات ہے – مصباح العرفان

منڈیر کی کیا بات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے
حل کیوں نہ ہوں میری مشکلیں
میرا آقا محبوبِ ذاتؒ ہے
منڈیر کی کیا بات ہے
کافی پھرا میں در بدر
اب مل گیا ہے تیرا در
کرو سب پہ رحمت کی نظر
تُو منبعِ برکات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے

کہاں پھر رہے ہو ڈھونڈتے
محبوب ہیں یہ ذات کے
اس در پہ آؤ سائلو
یہاں بٹ رہی خیرات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے

لکھوں شان کیا میں منڈیر کی
عادت نہیں یہاں دیر کی
ہر روز یہاں روزِ عید ہے
شبِ قدر ہر اِک رات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے

مہربانؒ کا جب نام لوں
مل جائے دل کو اِک سکوں
ہو جاتی اِن کے نام سے
انوار کی برسات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے

نظر کرم کرتے ہیں جو
میرے سامنے بیٹھے ہیں وہ
سرکار کے صدقے سے ہی
یہ سج رہی بارات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے

دلدار ہیں وہ سامنے
غم خوار ہیں وہ سامنے
گرتے ہوؤں کو تھام لیں
ان کے کرم کی بات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے

آئیں جو حاذقؔ پُر خطا
لیتے ہیں  قدموں سے لگا
جرم و خطا کو بخشنا
یہ منڈیر کی سوغات ہے
منڈیر کی کیا بات ہے

کلام:
خلیفہ محمد صلاح الدین حاذقؔ، فیصل آباد

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے