جمعہ، 13 فروری، 2015

شکریہ – مصباح العرفان

کسی بزرگ کا قول ہے کہ مومن کو سورج کی طرح شفیق دریا کی طرح رفیق اور سمندر کی طرح عمیق ہونا چاہیے
یہ قول حضرت محبوبِ ذات قدسیہ کی سیرت میں بدرجہ اتم جلوہ فرما تھا آپ روحانی ،اعتقادی اور عملی صورت میںجماعت اہل سنت کا قابلِ فخر سرمایہ تھے ۔آپ عزت و عشق مصطفیٰ ﷺ کے عظیم تقاضوں پر مکمل طور پر عمل پیرا تھے ۔ آپ زمرۂ ’’لا یحزنون‘‘میں داخل تھے اعلائے کلمہ الحق کے لیے کسی کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ حُسنِ صورت کے ساتھ ساتھ حُسنِ سیرت سے خوب مزین تھے ۔آپ کے زہدو تقویٰ میں اسلاف کا رنگ جھلکتا تھا ۔سخاوت کا بہتا ہوا سمندر تھے۔ایک دلنواز شخصیت کے مالک تھے ۔آپ کی ذات علم و عرفان کا بحر رواں اور فکر وایقاں کی بہار جاو داں تھی۔آپ کا سخن بلند تھا اور جان پر سوز تھی۔ محوِ کلام ہوتے تو معانی کا چشمہ ابلتا، خاموش رہتے تو افکار کا سمندر لگتے، مسکراتے تو صبحِ نور کے اجالے بکھرتے ہوئے محسوس ہوتے۔
کیمیا پیدا کن از مشتِ گِلے
بوسہ زَن بر آستانِ کا مِلے
آپ کی سیرت پہ لکھی جانے والی کتاب اس وقت میری نگاہوں کے سامنے ہے۔جسے صحیفہء محبت کہوں تو بجا ہوگا۔
جسے آپؒ ہی کے نور دیدہ اور گلِ سرسبد نے تحریر کیا ہے۔ میری مراد زاہدِ شبِ زندہ دار، مجسمہ حمیّت‘ پیکرِ جمالِ محبت‘ سراپا علم و آگہی‘ وارثِ مسندِ محبوبِ ذات‘ حاملِ افکارِ سخیٔ کامل‘ حضرت پیر سیّد محمد مبارک علی شاہ صاحب گیلانی‘ سجادہ نشین آستانہ عالیہ منڈیر سیّداں شریف۔ حضرت محبوبِ ذات پر لکھی جانے والی کتاب کے نورانی صفحات بتا رہے ہیںکہ مصنفِ کتاب نے بڑی تحقیق و جستجو اور محنتِ شاقہ کے ساتھ ساتھ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہٗ کے حالات و واقعات کو کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ تحریر نہایت ہی پر تاثیر ہے۔
حضرت قبلہ صاحبزادہ والا شان نے حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ کے مقامِ محبوبیت کو جس خوبصوت انداز میں پیش کیا ہے۔ ایک ایک فقرے پر داد دینے کو دل چاہتا ہے عمدہ اور حسین الفاظ کا استعمال دیکھ کر سبحان اللہ اور جزاک اللہ کے ڈونگرے برسانے کو دل کرتا ہے۔ شائستہ انداز، نرم و نازک اور سبک شیریں جملے، ربط و تاثیر، پاکیزہ احساسات، ارفع خیالات، قرآن و احادیث سے مزین اور صوفیاء کے فکری اور نظریاتی نوادرات اس انداز سے تحریر فرمائے ہیں جس سے آپ کے فہم و ادراک کی بلندیوں کا اندازہ ہوتا ہے۔
حضرت صاحبزادہ والا شان نے اعلیٰ حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ کی بالیوں والی کرامت کو اپنے سحر انگیز اور خوش گوار قلم سے تحریر کرتے ہوئے فلسفیانہ انداز اختیار فرمایا ہے۔
آپ نے حضرت محبوبِ ذاتؒ کے کافی شاپ لٹانے والے واقعات میں استعارات تلمیحات و محاورات کو جس طرح استعمال کیا ہے اس سے آپ کی فصاحت و بلاغت کا اندازہ ہوتا ہے۔
گوالیار کے راجہ کی دربار پہ حاضری، دعا فی سبیل اللہ، انبالہ شریف، حسن ابدال اور بٹالہ شریف کے حسین اور خوبصورت واقعات کو یوں پیش کیا ہے کہ جیسے مصنف کی نگاہوں میں جدید و قدیم ادب کا ذخیرہ پوری طرح جلوہ ریز ہو اور سخن شناسی کی کیفیتوں سے مالا مال ہو۔
حضرت محبوبِ ذات قدس سرہ نہ صرف اقلیم فقرو درویشی کے شہنشاہ تھے بلکہ کشورِ علم و فضل کے بھی تاجدار تھے۔ سلسلۂ قادریہ سے نسبت کے صدقے میں کفر و شرک کا اندھیرا جو صدیوں سے خیمہ زن تھا اس کو اپنے نعرۂ عشق سے تار تار کردیا تو بارگاہ رسالت ﷺ سے ایک جبہ مبارک اور تحریر آپ کو عطا فرمائی گئی ۔ مصنفِ کتاب نے جبۂ جاناں ﷺ اور تحریر جاناں ﷺ کے عنوان سے ان خوبصورت واقعات کو نقل کیا ہے ان تمام واقعات نے اس کتاب کو چار چاند لگا دیے ہیں۔
ان شاء اللہ کتاب کا مطالعہ کرنے والوں کو عقیدے کی لذت اور ایمان کی چاشنی نصیب ہوگی۔ دعا ہے اللہ تبارک و تعالیٰ بطفیل حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ اس کتاب کی برکت سے اہل اسلام کو مستفید فرمائے ۔آمین۔
وابستگانِ دربارِ عالیہ اس کاوش پر صاحبزادہ والا شان حضرت سیّد محمد مبارک علی شاہ گیلانی دامت برکاتہم العالیہ کے انتہائی شکرگزار ہیں۔
محمد ناصر رضا
مہتم مدینہ العلم رحیم پور، اُگوکی (سیالکوٹ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

اپنی رائے دیجئے